EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

ساحر لدھیانوی




جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے

ساحر لدھیانوی




کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی




میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو
کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں

ساحر لدھیانوی




محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ساحر لدھیانوی




پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں
ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی

ساحر لدھیانوی




تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی