ستم نوازئ پیہم ہے عشق کی فطرت
فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے
شکیل بدایونی
ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل
her mention, her yearning her memory
O how precious time now seems to me
شکیل بدایونی
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
شکیل بدایونی
وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
شکیل بدایونی
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
Every evening was, by hope, sustained
This evening's desperation makes me weep
شکیل بدایونی
رات تھی جب تمہارا شہر آیا
پھر بھی کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی
شارق کیفی
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
مصطفیٰ خاں شیفتہ