فرض سپردگی میں تقاضے نہیں ہوئے
تیرے کہاں سے ہوں کہ ہم اپنے نہیں ہوئے
کچھ قرض اپنی ذات کے ہو بھی گئے وصول
جیسے ترے سپرد تھے ویسے نہیں ہوئے
اچھا ہوا کہ ہم کو مرض لا دوا ملا
اچھا نہیں ہوا کہ ہم اچھے نہیں ہوئے
اس کے بدن کا موڑ بڑا خوش گوار ہے
ہم بھی سفر میں عمر سے ٹھہرے نہیں ہوئے
اک روز کھیل کھیل میں ہم اس کے ہو گئے
اور پھر تمام عمر کسی کے نہیں ہوئے
ہم آ کے تیری بزم میں بے شک ہوئے ذلیل
جتنے گناہ گار تھے اتنے نہیں ہوئے
اس بار جنگ اس سے رعونت کی تھی سو ہم
اپنی انا کے ہو گئے اس کے نہیں ہوئے
غزل
فرض سپردگی میں تقاضے نہیں ہوئے
وپل کمار