EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

عباس تابش




لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے
تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی

عبد الحمید عدم




پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

عبد الحمید عدم




تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے

عبد المجید سالک




عشق کی صف منیں نمازی سب
آبروؔ کو امام کرتے ہیں

آبرو شاہ مبارک




عشق کے مضموں تھے جن میں وہ رسالے کیا ہوئے
اے کتاب زندگی تیرے حوالے کیا ہوئے

ابو محمد سحر




سحرؔ اب ہوگا میرا ذکر بھی روشن دماغوں میں
محبت نام کی اک رسم بے جا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر