EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

شکیل بدایونی




میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

My companion, my intimate, be not a friend and yet betray
The pain of love is fatal now, for my life please do not pray

شکیل بدایونی




محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم
محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے

شکیل بدایونی




مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا

I then came to believe it was, my goal, my destiny
When someone in my path called out to me repeatedly

شکیل بدایونی




مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا

شکیل بدایونی




مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کو جیتنا
کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے

was difficult to win the game of love to a degree
and so I went on losing being afraid of victory

شکیل بدایونی




شکیلؔ اس درجہ مایوسی شروع عشق میں کیسی
ابھی تو اور ہونا ہے خراب آہستہ آہستہ

شکیل بدایونی