EN हिंदी
محابب شیاری | شیح شیری

محابب

406 شیر

نہ کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا
محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں

محمد رفیع سودا




محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر

سیماب اکبرآبادی




وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

شاد لکھنوی




عشق کی ابتدا تو جانتے ہیں
عشق کی انتہا نہیں معلوم

شفیق جونپوری




یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

شہریار




یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا

شہریار




سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے

شہزاد احمد