عشق پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے ہے
ہوش کے دور میں بھی جامہ دری مانگے ہے
ہائے آغاز محبت میں وہ خوابوں کے طلسم
زندگی پھر وہی آئینہ گری مانگے ہے
دل جلانے پہ بہت طنز نہ کر اے ناداں
شب گیسو بھی جمال سحری مانگے ہے
میں وہ آسودۂ جلوہ ہوں کہ تیری خاطر
ہر کوئی مجھ سے مری خوش نظری مانگے ہے
تیری مہکی ہوئی زلفوں سے بہ انداز حسیں
جانے کیا چیز نسیم سحری مانگے ہے
آپ چاہیں تو تصور بھی مجسم ہو جائے
ذوق آذر تو نئی جلوہ گری مانگے ہے
حسن ہی تو نہیں بیتاب نمائش عنواںؔ
عشق بھی آج نئی جلوہ گری مانگے ہے
غزل
عشق پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے ہے
عنوان چشتی