سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
اس موسم گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابر بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب بھی تری آئی
چرکے وہ دیے دل کو محرومیٔ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
یہ بزم محبت ہے اس بزم محبت میں
دیوانے بھی شیدائی فرزانے بھی شیدائی
غزل
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
صوفی تبسم