اٹھی پھر دل میں اک موج شباب آہستہ آہستہ
کچھ آیا زندگی میں انقلاب آہستہ آہستہ
سما کر مجھ میں وہ جان شباب آہستہ آہستہ
بنا دے گا مجھے اپنا جواب آہستہ آہستہ
یہ محفل زاہدان خشک کی محفل ہے اے رندو
ذرا اس بزم میں ذکر شراب آہستہ آہستہ
مری نظریں مجھی کو رفتہ رفتہ بھول جاتی ہیں
ہوئے جاتے ہیں جلوے کامیاب آہستہ آہستہ
نہ کہئے ہاں نہ کہئے آپ کو مجھ سے محبت ہے
نگاہیں خود ہی دے دیں گی جواب آہستہ آہستہ
شکیلؔ اس درجہ مایوسی شروع عشق میں کیسی
ابھی تو اور ہونا ہے خراب آہستہ آہستہ
غزل
اٹھی پھر دل میں اک موج شباب آہستہ آہستہ
شکیل بدایونی