EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

ماہر القادری




وہ مرے ساتھ ہے سائے کی طرح
دل کی ضد ہے کہ نظر بھی آئے

محمود ایاز




دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں

مہتاب عالم




عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین




چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

ملک زادہ منظور احمد




مجھ سے دلی کی نہیں دل کی کہانی سنئے
شہر تو یہ بھی کئی بار لٹا ہے مجھ میں

منصور عثمانی




درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

منظر لکھنوی