عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
ماہر القادری
وہ مرے ساتھ ہے سائے کی طرح
دل کی ضد ہے کہ نظر بھی آئے
محمود ایاز
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
مہتاب عالم
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدومؔ محی الدین
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
ملک زادہ منظور احمد
مجھ سے دلی کی نہیں دل کی کہانی سنئے
شہر تو یہ بھی کئی بار لٹا ہے مجھ میں
منصور عثمانی
ٹیگز:
| دل |
| 2 لائنیں شیری |
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے
منظر لکھنوی