شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
ناصر کاظمی
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
نظیر اکبرآبادی
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
ندا فاضلی
دل جو دے کر کسی کافر کو پریشاں ہو جائے
عافیت اس کی ہے اس میں کہ مسلماں ہو جائے
نوح ناروی
دل کے دو حصے جو کر ڈالے تھے حسن و عشق نے
ایک صحرا بن گیا اور ایک گلشن ہو گیا
نوح ناروی
دل انہیں دیں گے مگر ہم دیں گے ان شرطوں کے ساتھ
آزما کر جانچ کر سن کر سمجھ کر دیکھ کر
نوح ناروی
مجھ کو یہ فکر کہ دل مفت گیا ہاتھوں سے
ان کو یہ ناز کہ ہم نے اسے چھینا کیسا
نوح ناروی