EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ناصر کاظمی




خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

نظیر اکبرآبادی




دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

ندا فاضلی




دل جو دے کر کسی کافر کو پریشاں ہو جائے
عافیت اس کی ہے اس میں کہ مسلماں ہو جائے

نوح ناروی




دل کے دو حصے جو کر ڈالے تھے حسن و عشق نے
ایک صحرا بن گیا اور ایک گلشن ہو گیا

نوح ناروی




دل انہیں دیں گے مگر ہم دیں گے ان شرطوں کے ساتھ
آزما کر جانچ کر سن کر سمجھ کر دیکھ کر

نوح ناروی




مجھ کو یہ فکر کہ دل مفت گیا ہاتھوں سے
ان کو یہ ناز کہ ہم نے اسے چھینا کیسا

نوح ناروی