چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
الجھن گھٹن ہراس تپش کرب انتشار
وہ بھیڑ ہے کہ سانس بھی لینا محال ہے
آوارگی کا حق ہے ہواؤں کو شہر میں
گھر سے چراغ لے کے نکلنا محال ہے
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے ہر اک وجود
آئینہ پوچھتا ہے کہاں خد و خال ہے
جن میں یہ وصف ہو کہ چھپا لیں ہر ایک داغ
ان آئنوں کی آج بڑی دیکھ بھال ہے
پرچھائیاں قدوں سے بھی آگے نکل گئیں
سورج کے ڈوب جانے کا اب احتمال ہے
کشکول چشم لے کے پھرو تم نہ در بدر
منظورؔ قحط جنس وفا کا یہ سال ہے
غزل
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
ملک زادہ منظور احمد