EN हिंदी
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے | شیح شیری
ishq ke shoale ko bhaDkao ki kuchh raat kaTe

غزل

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین

;

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے

کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے

چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نامہ کو دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

آج ہو جانے دو ہر ایک کو بد مست و خراب
آج ایک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے

کوہ غم اور گراں اور گراں اور گراں
غم زدو تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے