EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے

عبد المجید سالک




اندھیری رات کو میں روز عشق سمجھا تھا
چراغ تو نے جلایا تو دل بجھا میرا

عبدالرحمان احسان دہلوی




میں ٹھہرتا گیا رفتہ رفتہ
اور یہ دل اپنی روانی میں رہا

ابرار احمد




یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

ابرار احمد




دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے
رونق کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو

ادا جعفری




مجھے گم شدہ دل کا غم ہے تو یہ ہے
کہ اس میں بھری تھی محبت کسی کی

افسر الہ آبادی




کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

آفتاب حسین