EN हिंदी
ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے | شیح شیری
har nafas mein dil ki betabi baDhate jaiye

غزل

ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے

ماہر القادری

;

ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے
دور رہ کر بھی مرے نزدیک آتے جائیے

اک ذرا تھم تھم کے یہ پردے اٹھاتے جائیے
دیکھنے والوں کی نظریں آزماتے جائیے

میرے اس ظلمت کدے کو جگمگاتے جائیے
ہو سکے تو میری خاطر مسکراتے جائیے

پھر اسی انداز سے نظریں ملاتے جائیے
دیکھنے والوں کی نظریں آزماتے جائیے

یا کوئی تسکین کی صورت بتاتے جائیے
یا پھر اپنی یاد سے غافل بناتے جائیے

رفتہ رفتہ خود کو دیوانہ بناتے جائیے
حسن کی دلچسپیوں کے کام آتے جائیے

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

کفر و ایماں کے سوا بھی کچھ مناظر اور ہیں
ان کے ہر انداز پر ایمان لاتے جائیے

آ ہی جائے گا کوئی قسمت کا مارا قیس بھی
ہر طرف ام رخ لیلیٰ بچھاتے جائیے

میں نے کچھ فطرت ہی پائی ہے عجب مشکل پسند
میری ہر مشکل کو مشکل تر بناتے جائیے

یاد ہے ماہرؔ مجھے ان کا وہ کہنا یاد ہے
آج تو بس رات بھر غزلیں سناتے جائیے