EN हिंदी
درد ہو دل میں تو دوا کیجے | شیح شیری
dard ho dil mein to dawa kije

غزل

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

منظر لکھنوی

;

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے
درد کی درد سے دوا کیجے

آپ اور عہد پر وفا کیجے
توبہ توبہ خدا خدا کیجے

دیکھتا ہوں جو حشر کے آثار
اپنے تیور ملاحظہ کیجے

نظر التفات بن گئی موت
مری قسمت کو آپ کیا کیجے

دیکھیے مقتضائے حال مریض
اب دوا چھوڑیئے دوا کیجے

چار دن کی حیات میں منظرؔ
کیوں کسی سے بھی دل برا کیجے