غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر
وہ نظر سے چھپ گئے ہیں مری زندگی بدل کر
تری گفتگو کو ناصح دل غم زدہ سے جل کر
ابھی تک تو سن رہا تھا مگر اب سنبھل سنبھل کر
نہ ملا سراغ منزل کبھی عمر بھر کسی کو
نظر آ گئی ہے منزل کبھی دو قدم ہی چل کر
غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں
نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر
ہیں کسی کے منتظر ہم مگر اے امید مبہم
کہیں وقت رہ نہ جائے یوں ہی کروٹیں بدل کر
مرے دل کو راس آیا نہ جمود غیر فانی
ملی راہ زندگانی مجھے خار سے نکل کر
مری تیز گامیوں سے نہیں برق کو بھی نسبت
کہیں کھو نہ جائے دنیا مرے ساتھ ساتھ چل کر
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر
ہیں شکیلؔ زندگی میں یہ جو وسعتیں نمایاں
انہیں وسعتوں سے پیدا کوئی عالم غزل کر
غزل
غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر
شکیل بدایونی