آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے کوئی
دل کو کھینچے لیے جاتا ہے کوئی
وائے حیرت کہ بھری محفل میں
مجھ کو تنہا نظر آتا ہے کوئی
صبح کو خنک فضاؤں کی قسم
روز آ آ کے جگاتا ہے کوئی
منظر حسن دو عالم کے نثار
مجھ کو آئینہ دکھاتا ہے کوئی
چاہیے خود پہ یقین کامل
حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی
سب کرشمات تصور ہیں شکیلؔ
ورنہ آتا ہے نہ جاتا ہے کوئی
غزل
آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے کوئی
شکیل بدایونی