EN हिंदी
آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے کوئی | شیح شیری
aankh se aankh milata hai koi

غزل

آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے کوئی

شکیل بدایونی

;

آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے کوئی
دل کو کھینچے لیے جاتا ہے کوئی

وائے حیرت کہ بھری محفل میں
مجھ کو تنہا نظر آتا ہے کوئی

صبح کو خنک فضاؤں کی قسم
روز آ آ کے جگاتا ہے کوئی

منظر حسن دو عالم کے نثار
مجھ کو آئینہ دکھاتا ہے کوئی

چاہیے خود پہ یقین کامل
حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

سب کرشمات تصور ہیں شکیلؔ
ورنہ آتا ہے نہ جاتا ہے کوئی