غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے
یہ وہ خزاں ہے جو ڈوبی ہوئی بہار میں ہے
اثر شراب کا عہد وفائے یار میں ہے
قدم قدم پہ جو لغزش سی اعتبار میں ہے
شگفتگئ دل کارواں کو کیا سمجھے
وہ اک نگاہ جو الجھی ہوئی بہار میں ہے
شکست حوصلۂ ضبط غم مجھے منظور
چلے بھی آؤ کہ دل کب سے انتظار میں ہے
یہ اضطراب کا عالم یہ شوق بے پایاں
شکیلؔ آج بلا شبہ کوئے یار میں ہے
غزل
غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے
شکیل بدایونی