EN हिंदी
دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں | شیح شیری
duniya ki riwayat se begana nahin hun

غزل

دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں

شکیل بدایونی

;

دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوں
چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں

اس کثرت غم پر بھی مجھے حسرت غم ہے
جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں

روداد غم عشق ہے تازہ مرے دم سے
عنوان ہر افسانہ ہوں افسانہ نہیں ہوں

الزام جنوں دیں نہ مجھے اہل محبت
میں خود یہ سمجھتا ہوں کہ دیوانہ نہیں ہوں

میں قائل خوددارئ الفت سہی لیکن
آداب محبت سے تو بیگانہ نہیں ہوں

ہے برق سر طور سے دل شعلہ بداماں
شمع سر محفل ہوں میں پروانہ نہیں ہوں

ہے گردش ساغر مری تقدیر کا چکر
محتاج طواف در مے خانہ نہیں ہوں

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

لذت کش نظارہ شکیلؔ اپنی نظر ہے
محروم جمال رخ جانانہ نہیں ہوں