ان سے امید رو نمائی ہے
کیا نگاہوں کی موت آئی ہے
حسن مصروف خود نمائی ہے
عشق کا دور ابتدائی ہے
دل نے غم سے شکست کھائی ہے
عمر رفتہ تری دہائی ہے
دل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں
فتح پا کر شکست کھائی ہے
میرے معبد نہیں ہیں دیر و حرم
احتیاطاً جبیں جھکائی ہے
وہ ہوا دے رہے ہیں دامن کی
ہائے کس وقت نیند آئی ہے
کھل گیا ان کی آرزو میں یہ راز
زیست اپنی نہیں پرائی ہے
شمع پروانہ ہوں کہ غنچہ و گل
زندگی کس کو راس آئی ہے
گل فسردہ چمن اداس شکیلؔ
یوں بھی اکثر بہار آئی ہے
غزل
ان سے امید رو نمائی ہے
شکیل بدایونی