نہ پیمانے کھنکتے ہیں نہ دور جام چلتا ہے
نئی دنیا کے رندوں میں خدا کا نام چلتا ہے
غم عشق سے ہیں غم ہستی کے ہنگامے جدا لیکن
وہاں بھی دن گزرتے ہیں یہاں بھی کام چلتا ہے
چھپے ہیں لاکھ حق کے مرحلے گم نام ہونٹوں پر
اسی کی بات چل جاتی ہے جس کا نام چلتا ہے
جنون رہروی وقت کی رفتار سے پوچھو
کوئی منزل نہیں لیکن یہ صبح و شام چلتا ہے
شکیلؔ مست کو مستی میں جو کہنا ہے کہنے دو
یہ مے خانہ ہے اے واعظ یہاں سب کام چلتا ہے
غزل
نہ پیمانے کھنکتے ہیں نہ دور جام چلتا ہے
شکیل بدایونی