دل کے بہلانے کی تدبیر تو ہے
تو نہیں ہے تری تصویر تو ہے
ہم سفر چھوڑ گئے مجھ کو تو کیا
ساتھ میرے مری تقدیر تو ہے
قید سے چھوٹ کے بھی کیا پایا
آج بھی پاؤں میں زنجیر تو ہے
کیا مجال ان کی نہ دیں خط کا جواب
بات کچھ باعث تاخیر تو ہے
پرسش حال کو وہ آ ہی گئے
کچھ بھی ہو عشق میں تاثیر تو ہے
غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
غزل
دل کے بہلانے کی تدبیر تو ہے
شکیل بدایونی