بے کار گئی آڑ ترے پردۂ در کی
اللہ رے وسعت مرے آغوش نظر کی
پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
ایمان کی دولت سے ترے حسن کا سودا
ایمان کی دولت ہے تری ایک نظر کی
آ جائے تصور میں کوئی حشر بداماں
پھر میری شب غم کو ضرورت ہے سحر کی
وہ سامنے ہیں پھر بھی انہیں ڈھونڈ رہا ہوں
آخر کوئی حد بھی ہے حجابات نظر کی
تنہائی فرقت میں جو عالم ہے ادھر کا
ہنگامۂ محفل میں وہ حالت ہے ادھر کی
کچھ سہل نہ پائے ہیں محبت کے مراتب
چھانی ہے بہت خاک تری راہگزر کی
غزل
بے کار گئی آڑ ترے پردۂ در کی
شکیل بدایونی