نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا
وہ کیا گئے کہ بہاروں میں جی نہیں لگتا
شب فراق کو اے چاند آ کے چمکا دے
نظر اداس ہے تاروں میں جی نہیں لگتا
غم حیات کے مارے تو ہم بھی ہیں لیکن
غم حیات کے ماروں میں جی نہیں لگتا
نہ پوچھ مجھ سے ترے غم میں کیا گزرتی ہے
یہی کہوں گا ہزاروں میں جی نہیں لگتا
کچھ اس قدر ہے غم زندگی سے دل مایوس
خزاں گئی تو بہاروں میں جی نہیں لگتا
فسانۂ شب غم ختم ہونے والا ہے
شکیلؔ چاند ستاروں میں جی نہیں لگتا
غزل
نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا
شکیل بدایونی