زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا
ایک دوشیزہ پہ غربت میں شباب آیا تو کیا
تشنۂ انوار ہے اب تک عروس زندگی
بادلوں کی پالکی میں آفتاب آیا تو کیا
اب تو آنکھوں پر غم ہستی کے پردے پڑ گئے
اب کوئی حسن مجسم بے نقاب آیا تو کیا
پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش
منزل جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا
اک تجلی سے منور کیجیے قصر حیات
ہر تجلی پر دل خانہ خراب آیا تو کیا
بات جب ہے غم کے ماروں کو جلا دے اے شکیلؔ
تو یہ زندہ میتیں مٹی میں داب آیا تو کیا
غزل
زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا
شکیل بدایونی