EN हिंदी
زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا | شیح شیری
zindagi ka dard le kar inqalab aaya to kya

غزل

زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا

شکیل بدایونی

;

زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا
ایک دوشیزہ پہ غربت میں شباب آیا تو کیا

تشنۂ انوار ہے اب تک عروس زندگی
بادلوں کی پالکی میں آفتاب آیا تو کیا

اب تو آنکھوں پر غم ہستی کے پردے پڑ گئے
اب کوئی حسن مجسم بے نقاب آیا تو کیا

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش
منزل جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

اک تجلی سے منور کیجیے قصر حیات
ہر تجلی پر دل خانہ خراب آیا تو کیا

بات جب ہے غم کے ماروں کو جلا دے اے شکیلؔ
تو یہ زندہ میتیں مٹی میں داب آیا تو کیا