اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
پو پھٹنے سے پہلے ہی گلی جاگ اٹھی ہے
عاشق ہو تو چوروں میں بھی اب نام لکھاؤ
دروازہ بھلے بند ہے کھڑکی تو کھلی ہے
لوگ اپنے مکانوں کی طرف بھاگ رہے ہیں
گھر والوں پہ جیسے کوئی افتاد پڑی ہے
اے باد صبا کس لیے پھرتی ہے پریشاں
کیا تو بھی اسی پھول کی ٹھکرائی ہوئی ہے
آ گردش دوراں تجھے سینے سے لگا لوں
اب تک تو مری جاں تو مرے ساتھ رہی ہے
اب آئے ہو دنیا میں تو یوں منہ نہ بگاڑو
دو روز تو رہنا ہے بری ہے تو بری ہے
بازار کے داموں کی شکایت ہے ہر اک کو
پھر بھی سر بازار بڑی بھیڑ لگی ہے
کانٹے کی طرح سوکھ کے رہ جاؤ گے علویؔ
چھوڑو یہ غزل گوئی یہ بیماری بری ہے
غزل
اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
محمد علوی