EN हिंदी
اور کوئی چارا نہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی | شیح شیری
aur koi chaara na tha aur koi surat na thi

غزل

اور کوئی چارا نہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی

محمد علوی

;

اور کوئی چارا نہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی
اس کے رہے ہو کے ہم جس سے محبت نہ تھی

اتنے بڑے شہر میں کوئی ہمارا نہ تھا
اپنے سوا آشنا ایک بھی صورت نہ تھی

اس بھری دنیا سے وہ چل دیا چپکے سے یوں
جیسے کسی کو بھی اب اس کی ضرورت نہ تھی

اب تو کسی بات پر کچھ نہیں ہوتا ہمیں
آج سے پہلے کبھی ایسی تو حالت نہ تھی

سب سے چھپاتے رہے دل میں دباتے رہے
تم سے کہیں کس لیے غم تھا وہ دولت نہ تھی

اپنا تو جو کچھ بھی تھا گھر میں پڑا تھا سبھی
تھوڑا بہت چھوڑنا چور کی عادت نہ تھی

ایسی کہانی کا میں آخری کردار تھا
جس میں کوئی رس نہ تھا کوئی بھی عورت نہ تھی

شعر تو کہتے تھے ہم سچ ہے یہ علویؔ مگر
تم کو سناتے کبھی اتنی بھی فرصت نہ تھی