زمین لوگوں سے ڈر گئی ہے
سمندروں میں اتر گئی ہے
خموشیوں میں صدا گجر کی
خیال کے پر کتر گئی ہے
کھڑے ہیں بے برگ سر جھکائے
ہوا درختوں کو چر گئی ہے
ہمیں تو نیند آئے گی نہ لیکن
یہ رات بھی تو ٹھہر گئی ہے
کہاں بھٹکتے پھرو گے علویؔ
سڑک سے پوچھو کدھر گئی ہے
غزل
زمین لوگوں سے ڈر گئی ہے
محمد علوی