کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
نکل کے گھر سے نہ پھر اپنے گھر میں آؤں میں
بکھیر دے مجھے چاروں طرف خلاؤں میں
کچھ اس طرح سے الگ کر کہ جڑ نہ پاؤں میں
یہ جو اکیلے میں پرچھائیاں سی بنتی ہیں
بکھر ہی جائیں گی لیکن کسے دکھاؤں میں
مرا مکان اگر بیچ میں نہ آئے تو
ان اونچے اونچے مکانوں کو پھاند جاؤں میں
گواہی دیتا وہی میری بے گناہی کی
وہ مر گیا تو اسے اب کہاں سے لاؤں میں
یہ زندگی تو کہیں ختم ہی نہیں ہوتی
اب اور کتنے دنوں یہ عذاب اٹھاؤں میں
غزل کہی ہے کوئی بھانگ تو نہیں پی ہے
مشاعرے میں ترنم سے کیوں سناؤں میں
ارے وہ آپ کے دیوان کیا ہوئے علویؔ
بکے نہ ہوں تو کباڑی کو ساتھ لاؤں میں
غزل
کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
محمد علوی