EN हिंदी
سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا | شیح شیری
sach hai ki wo bura tha har ek se laDa kiya

غزل

سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا

محمد علوی

;

سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا
لیکن اسے ذلیل کیا یہ برا کیا

گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں
کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا

گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا
پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا

کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اتر پڑے
بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اڑا کیا

اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا
یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا

چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی دھرا نہیں
آؤ تمہیں بتائیں کہ علویؔ نے کیا کیا