سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا
لیکن اسے ذلیل کیا یہ برا کیا
گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں
کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا
گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا
پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا
کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اتر پڑے
بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اڑا کیا
اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا
یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا
چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی دھرا نہیں
آؤ تمہیں بتائیں کہ علویؔ نے کیا کیا
غزل
سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا
محمد علوی