آنکھ میں دہشت نہ تھی ہاتھ میں خنجر نہ تھا
سامنے دشمن تھا پر دل میں کوئی ڈر نہ تھا
اس سے بھی مل کر ہمیں مرنے کی حسرت رہی
اس نے بھی جانے دیا وہ بھی ستم گر نہ تھا
اک پہاڑی پہ میں بیٹھا رہا دیر تک
شوق سے دیکھا کروں ایسا بھی منظر نہ تھا
ہم سے جو آگے گئے کتنے مہربان تھے
دور تلک راہ میں ایک بھی پتھر نہ تھا
رات بہت دیر سے آنکھ لگتی تھی ذرا
نیند میں کمرہ نہ تھا خواب میں بستر نہ تھا
شعر تو ہم نے بہت ٹھیک کیا تھا مگر
اب بھی غلط تھا کہیں اب بھی برابر نہ تھا
سوچا تھا اس بار تو جا کے ظفرؔ سے ملیں
کیا کریں علویؔ مگر ایسا مقدر نہ تھا
غزل
آنکھ میں دہشت نہ تھی ہاتھ میں خنجر نہ تھا
محمد علوی