گرہ میں رشوت کا مال رکھیے
ضرورتوں کو بحال رکھیے
بچھائے رکھیے اندھیرا ہر سو
ستارہ کوئی اچھال رکھیے
ارے یہ دل اور اتنا خالی
کوئی مصیبت ہی پال رکھیے
جہاں کہ بس اک طلسم سا ہے
نہ ٹوٹ جائے خیال رکھیے
تڑا مڑا ہے مگر خدا ہے
اسے تو صاحب سنبھال رکھیے
تمام رنجش کو دل سے علویؔ
وہ آ رہا ہے نکال رکھیے
غزل
گرہ میں رشوت کا مال رکھیے
محمد علوی