میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا
گلی کا شور گھر میں آ گیا تھا
پریشاں تھا کھلا دروازہ گھر کا
کوئی کھڑکی پہ دستک دے رہا تھا
اسے میں شہر بھر میں ڈھونڈ آیا
مرے کمرے میں وہ بیٹھا ہوا تھا
وہاں کے لوگ بھی کتنے عجب تھے
عجب لوگوں میں گھر کے رہ گیا تھا
بہت خوش ہو رہا تھا مجھ سے مل کے
نہ جانے آج اس کے دل میں کیا تھا
اسے میں نے بھی کل دیکھا تھا علویؔ
نئے کپڑے پہن کے جا رہا تھا
غزل
میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا
محمد علوی