EN हिंदी
زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا | شیح شیری
zamin kahin bhi na thi chaar-su samundar tha

غزل

زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا

محمد علوی

;

زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا
کسے دکھاتے بڑا ہول ناک منظر تھا

لڑھک کے میری طرف آ رہا تھا اک پتھر
پھر ایک اور پھر اک اور بڑا سا پتھر تھا

فصیلیں دل کی گراتا ہوا جو در آیا
وہ کوئی اور نہ تھا خواہشوں کا لشکر تھا

بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو
کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا

بہت سے ہاتھ اگ آئے تھے میری آنکھوں میں
ہر ایک ہاتھ میں اک نوک دار خنجر تھا

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا
برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

ہمارے واسطے علویؔ کے شعر کیا کم ہیں
چلو قبول کہ غالبؔ بڑا سخن ور تھا