زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا
کسے دکھاتے بڑا ہول ناک منظر تھا
لڑھک کے میری طرف آ رہا تھا اک پتھر
پھر ایک اور پھر اک اور بڑا سا پتھر تھا
فصیلیں دل کی گراتا ہوا جو در آیا
وہ کوئی اور نہ تھا خواہشوں کا لشکر تھا
بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو
کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا
بہت سے ہاتھ اگ آئے تھے میری آنکھوں میں
ہر ایک ہاتھ میں اک نوک دار خنجر تھا
وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا
برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا
ہمارے واسطے علویؔ کے شعر کیا کم ہیں
چلو قبول کہ غالبؔ بڑا سخن ور تھا
غزل
زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا
محمد علوی