EN हिंदी
یار آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے | شیح شیری
yar aaj maine bhi ek kamal karna hai

غزل

یار آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے

محمد علوی

;

یار آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے
جسم سے نکلنا ہے جی بحال کرنا ہے

آنکھیں اور چہرے پر چار چھ لگانی ہیں
سارا حسن قدرت کا پائمال کرنا ہے

زندگی کے رستے پر کیوں کھڑا ہوا ہوں میں
آتے جاتے لوگوں سے کیا سوال کرنا ہے

ہاں بچا لوں تھوڑا سا خود کو دن کے ہاتھوں سے
آتی رات کا بھی تو کچھ خیال کرنا ہے

لو پچاس بھی اب تو خیر سے ہوئے پورے
یہ تماشا کیا علویؔ ساٹھ سال کرنا ہے