میں اپنا نام ترے جسم پر لکھا دیکھوں
دکھائی دے گا ابھی بتیاں بجھا دیکھوں
پھر اس کو پاؤں مرا انتظار کرتے ہوئے
پھر اس مکان کا دروازہ ادھ کھلا دیکھوں
گھٹائیں آئیں تو گھر گھر کو ڈوبتا پاؤں
ہوا چلے تو ہر اک پیڑ کو گرا دیکھوں
کتاب کھولوں تو حرفوں میں کھلبلی مچ جائے
قلم اٹھاؤں تو کاغذ کو پھیلتا دیکھوں
اتار پھینکوں بدن سے پھٹی پرانی قمیص
بدن قمیص سے بڑھ کر کٹا پھٹا دیکھوں
وہیں کہیں نہ پڑی ہو تمنا جینے کی
پھر ایک بار انہیں جنگلوں میں جا دیکھوں
وہ روز شام کو علویؔ ادھر سے جاتی ہے
تو کیا میں آج اسے اپنے گھر بلا دیکھوں
غزل
میں اپنا نام ترے جسم پر لکھا دیکھوں
محمد علوی