EN हिंदी
یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا | شیح شیری
yakka ulaT ke rah gaya ghoDa bhaDak gaya

غزل

یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا

محمد علوی

;

یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا
کالی سڑک پہ چاند سا چہرہ چمک گیا

دیکھا اسے تو آنکھ سے پردہ سرک گیا
شعلہ سا ایک جسم کے اندر لپک گیا

باہر گلی میں کھل گئیں کلیاں گلاب کی
جھونکا ہوا کا آتے ہی کمرہ مہک گیا

مجھ پر نظر پڑی تو وہ شرما کے رہ گئی
پہلو سے اس کے اون کا گولا لڑھک گیا

کوشش کے باوجود میں باہر نہ آ سکا
اندر کا سلسلہ تو بہت دور تک گیا

میں نے ہی اس کو قتل کیا تھا یہ سچ ہے پر
سچ سچ بتاؤں میرا بھی اک اک پہ شک گیا

علویؔ نے آج دن میں کہانی سنائی تھی
شاید اسی وجہ سے میں رستہ بھٹک گیا