یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا
کالی سڑک پہ چاند سا چہرہ چمک گیا
دیکھا اسے تو آنکھ سے پردہ سرک گیا
شعلہ سا ایک جسم کے اندر لپک گیا
باہر گلی میں کھل گئیں کلیاں گلاب کی
جھونکا ہوا کا آتے ہی کمرہ مہک گیا
مجھ پر نظر پڑی تو وہ شرما کے رہ گئی
پہلو سے اس کے اون کا گولا لڑھک گیا
کوشش کے باوجود میں باہر نہ آ سکا
اندر کا سلسلہ تو بہت دور تک گیا
میں نے ہی اس کو قتل کیا تھا یہ سچ ہے پر
سچ سچ بتاؤں میرا بھی اک اک پہ شک گیا
علویؔ نے آج دن میں کہانی سنائی تھی
شاید اسی وجہ سے میں رستہ بھٹک گیا
غزل
یکہ الٹ کے رہ گیا گھوڑا بھڑک گیا
محمد علوی