EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

بشیر بدر




مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی

بشیر بدر




نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو
مکان خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا

بشیر بدر




نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

بشیر بدر




نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

neither are you in your senses nor am I in mine
let us now go to the tavern and talk while we have wine

بشیر بدر




نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

بشیر بدر




نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے

بشیر بدر




نام پانی پہ لکھنے سے کیا فائدہ
لکھتے لکھتے ترے ہاتھ تھک جائیں گے

بشیر بدر




نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے

بشیر بدر