مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
بشیر بدر
مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی
بشیر بدر
نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو
مکان خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا
بشیر بدر
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
بشیر بدر
نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی
neither are you in your senses nor am I in mine
let us now go to the tavern and talk while we have wine
بشیر بدر
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
بشیر بدر
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
بشیر بدر
نام پانی پہ لکھنے سے کیا فائدہ
لکھتے لکھتے ترے ہاتھ تھک جائیں گے
بشیر بدر
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے
بشیر بدر