پہچان اپنی ہم نے مٹائی ہے اس طرح
بچوں میں کوئی بات ہماری نہ آئے گی
بشیر بدر
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں
بشیر بدر
پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
بشیر بدر
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
بشیر بدر
پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں
دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی
بشیر بدر
پھر یاد بہت آئے گی زلفوں کی گھنی شام
جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا
بشیر بدر
پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے
اور اس دل کی طرف برسے تو پتھر برسے
بشیر بدر
پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے
بشیر بدر
پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں
مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا
بشیر بدر