EN हिंदी
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی | شیح شیری
na ji bhar ke dekha na kuchh baat ki

غزل

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی

بشیر بدر

;

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

اجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گنگنائی خیالات کی

میں چپ تھا تو چلتی ہوا رک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی

مقدر مری چشم پر آب کا
برستی ہوئی رات برسات کی

کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی