EN हिंदी
میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے | شیح شیری
mere dil ki rakh kured mat ise muskura ke hawa na de

غزل

میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے

بشیر بدر

;

میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے

نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے

ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
ترا نام لکھا ہے ریت پر کوئی لہر آ کے مٹا نہ دے

میں اداسیاں نہ سجا سکوں کبھی جسم و جاں کے مزار پر
نہ دیئے جلیں مری آنکھ میں، مجھے اتنی سخت سزا نہ دے

مرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑی دھوپ سر پہ اٹھائے گا
ترا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے

میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
مری سلطنت مرا فن رہے مجھے تاج و تخت خدا نہ دے