EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

وہ چہرہ کتابی رہا سامنے
بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی

بشیر بدر




وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا
کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا

بشیر بدر




وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

بشیر بدر




وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

بشیر بدر




وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع
بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے

بشیر بدر




وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں

بشیر بدر




یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے

بشیر بدر




یہاں ایک بچے کے خون سے جو لکھا ہوا ہے اسے پڑھیں
ترا کیرتن ابھی پاپ ہے ابھی میرا سجدہ حرام ہے

بشیر بدر




یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

بشیر بدر