EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں
یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں

بشیر بدر




اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر




انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم سفر کہاں ہے

بشیر بدر




اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
مندروں میں چراغ جلتے ہیں

بشیر بدر




اس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسو آئے

بشیر بدر




اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے
کوئی پھول لاکھ قریب ہو کبھی میں نے اس کو چھوا نہیں

بشیر بدر




اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے

بشیر بدر




وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو

بشیر بدر




وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے

بشیر بدر