تہذیب کے لباس اتر جائیں گے جناب
ڈالر میں یوں نچائے گی اکیسویں صدی
بشیر بدر
تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی
مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی
بشیر بدر
تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر
بشیر بدر
تم محبت کو کھیل کہتے ہو
ہم نے برباد زندگی کر لی
بشیر بدر
تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مر جاؤں گا
یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو
بشیر بدر
تمہارے گھر کے سبھی راستوں کو کاٹ گئی
ہمارے ہاتھ میں کوئی لکیر ایسی تھی
بشیر بدر
تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
بشیر بدر
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
بشیر بدر
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بشیر بدر