دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے
اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے
وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے
وہ بھول پن ہے کہ بے باکی بھی حیا ہی لگے
یہ زعفرانی پلوور اسی کا حصہ ہے
کوئی جو دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے
عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
حسیں تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تجھ سا
جو دل جلائے بہت پھر بھی دل ربا ہی لگے
ہزاروں بھیس میں پھرتے ہیں رام اور رحیم
کوئی ضروری نہیں ہے بھلا بھلا ہی لگے
غزل
دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے
بشیر بدر