EN हिंदी
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے | شیح شیری
hai ajib shahr ki zindagi na safar raha na qayam hai

غزل

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

بشیر بدر

;

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے

کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے

وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے

کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا
ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے