EN हिंदी
بشیر بدر شیاری | شیح شیری

بشیر بدر شیر

159 شیر

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

she would have had compulsions surely
faithless without cause no one can be

بشیر بدر




لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے

بشیر بدر




لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

بشیر بدر




مان موسم کا کہا چھائی گھٹا جام اٹھا
آگ سے آگ بجھا پھول کھلا جام اٹھا

بشیر بدر




مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے

بشیر بدر




محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے
لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا

بشیر بدر




میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے

بشیر بدر




میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو
تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے

بشیر بدر




میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی

بشیر بدر