EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

گن رہا ہوں حرف ان کے عہد کے
مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یاد کیا

عزیز حیدرآبادی




تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

you did not ever think of me even by mistake
and in your thoughts everything else I did forsake

بہادر شاہ ظفر




میں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئی بات نہیں
بہتا رہتا ہے تری یاد کا دریا مجھ میں

بقا بلوچ




کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں

بشر نواز




لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے

بشیر بدر




رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں

بشیر بدر




اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر