EN हिंदी
یاد شیاری | شیح شیری

یاد

237 شیر

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

فیض احمد فیض




دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے
یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے

فنا نظامی کانپوری




پھر کسی کی یاد نے تڑپا دیا
پھر کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے

فانی بدایونی




اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

فانی بدایونی




خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں

فاطمہ حسن




زندگی ہو تو کئی کام نکل آتے ہیں
یاد آؤں گا کبھی میں بھی ضرورت میں اسے

فاضل جمیلی




اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

nowadays even her thoughts do not intrude
see how forlorn and lonely is my solitude

فراق گورکھپوری